آنکھ اٹھے تیرے لیے کھلتے ہیں لب تیرے لیے
میرا جینا میرا مرنا میرے رب تیرے لیے

دائرہ تیری رضا، پرکار میری زندگی
ہر تمنا، ہر ارادہ، ہر طلب تیرے لیے

مسجدِ الفاظ میں بھی دے رہا ہوں میں اذاں
میرا فن، میرا ہنر، میرا ادب تیرے لیے

رات کو اکثر تلاشی لوں ضمیر و ذہن کی
اپنے اندر بھی لگاتا ہوں نقب تیرے لیے

کیسے ہوسکتا ہے مجھ سے منØ+رف اِک سانس بھی
وقف میں نے کردیا ہے خود کو جب تیرے لیے

میری باقی عمر کے دن قیمتی ہیں کس قدر
میرا ہر لمØ+ہ بسر ہوتا ہے اب تیرے لیے

روشنی ہو یا اندھیرا تجھ سے میں غافل نہیں
میرا دن تیرے لیے ہے میری شب تیرے لیے

تیرے مدّاØ+ÙˆÚº میں شامل ہے مُظؔفر کا بھی نام
اس نے دنیا سے لیا ہے یہ لقب تیرے لیے​